امانت اور خیانت۔
امانت۔
“جب ہم کوئی چیز کچھ عرصہ کے لئے کسی کے حوالے کرتے ہیں اور وہ سہی واپس کر دیتا ہے اس کو امانت کہتے ہیں۔”
خیانت۔
“اگر ہماری کوئی چیز ہمیں سہی واپس نہ کرے تو اس کو خیانت کرتے ہیں۔”
اب میں آپ کو بتاؤں گی امانت کے بارے میں قرآن کا حکم ؟؟
” شک اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ تم اامانت داروں کو ان کی امانتیں واپس لوٹاؤ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو۔”
دوسری جگہ جہاں مومنوں کے صفات بیان کی ؟؟
وہاں فرمایا!
“اور جب ان کے پاس امانت رکھوائی جاتی ہیں تو وہ اس کی حفاظت کرتے ہیں”
امانت کے بارے میں حدیث نبوی؟؟
“منافق کی تین نشانیاں ہیں.
جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے تو وعدہ خلافی کرے جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو وہ اس میں خیانت کرے۔”
دیکھاا جائے تو تینوں باتیں اکٹھی ہو کر امانت ہی کی شکل اختیار کر لیتی ہییں۔
دوسرے حدیث میں ہے!
ترجمہ۔
“میری امت سے اس وقت تک خیر نہیں جائے گی جب تک وہ اپنی اماں جب تک وہ امانت کو مال غنیمت نہ سمجھ لیں”
امانت کے بارے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کردار؟؟
ابھی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی کا نزول بھی نہیں ہوا تھا٫
لیکن آپ کے اس قدر بلند کردار تھے کہ مشرکین مکہ نےآپ کو صادق اور امین کا لقب دے رکھا تھا۔
انہیں یقین تھا کہ پورے مکہ میں آپ سے بڑھ کر کوئی امین نہیں یہاں تک کہ جب آپ پر وحی اتری۔
اور آپ نے قوم کو اسلام کی دعوت دی تو وہ آپ کے مخالف بلکہ دشمن بن گئے مگر آپ کی صداقت اور امانت کا انکار پھر بھی نہیں کرتے تھے۔
واقعہ۔
جب کچھ لوگ آپ پر ایمان لائے اور مسلمان ہونگے تو کفار مکہ کے مظالم کے ڈر سے آپ کی اجازت سے٫
حبشہ کی طرف ہجرت کی تو کفار مکہ ان کو واپس لانے کے لیے وہاں پہنچ گئے۔
گئابو سفیان نے وہاں کے بادشاہ ہرقل ڈے ان کی واپسی کا مطالںہ کیا
یہ لوگ ہمارے مجرم ہیں انہیں واپس کیا جائے کیونکہ اپنے آ باؤ اجداد کے دین سے منحرف ہوکر محمد کا دن قبول کرکے یہاں ہسے بھگ آے ہیں۔
ہرقل نے ابو سفیان سے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور سیرت کے بارے میں سوال پوچھے؟؟
جب ہرقل نے آپ کی کی امانت داری صداقت اور ایفائے عہد کے بارے میں پوچھا؟؟
تو ابو سفیان نے بالکل سچ جواب دیے۔
اس پر ہرقل نے کہا ابو سفیان نے تمام صفات صرف ایک رسول میں ہی ہو سکتی ہیں۔
اس پر ابوسفیان لاجواب ہو گیا۔۔
امانت پر حضرت محمد صل وسلم کا بے مثال عمل؟؟
حدیث شریف میں یہ واقعہ منقول ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر ایک صحابی مجاہد نے مال غنیمت میں سے کوئی بہت چھوٹی چیز م مثلا کپڑوں کا جوڑا یا کچھ معمولی چیز اپنے پاس رکھ لی۔
انہیں جنگ کے دوران کافی زخم لگے۔
اور وہ فوت ہو گے حضور صلی وسلم کے علم میں یہ بات لائی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان کا جنازہ پڑھانے سے انکار کر دیا۔
صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ میں سے کچھ نے کہا اے اللہ کے نبی وہ ایک مجاہد تھے وہ لڑتے اور زخم بھی آئے ان کا جنازہ کیوں نہیں پڑھایا؟؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیشک یہ سچ ہے لیکن چونکہ اس نے امانت میں خیانت کی ہے لہٰذا میں اس کا جنازہ نہیں پڑھا وں گا۔
قرآن پاک کو اللہ تعالی نے ایک امانت بنا کر اپنے نبی پر اتارا آپ نے اس امانت کو لوگوں تک پہنچایا اور ایک زبرتک کی تحریف نہیں فرمائی اور اپنے آخری خطبہ میں لوگوں کو اس پر گواہ بنا کر پوچھا کہ کیا جو امانت اللہ نے میری طرف اتاری ہے یعنی قرآن و حدیت میں نے تم تک پہنچا دیں؟
پھر تین مرتبہ اس بات پر گواہی لی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں نے لوگوں امانت پہنچا دی ہے۔
امانت کی قسمیں؟؟
ہمارے ہر معاشی معاشرتی دینی معاملات مکار فرما ہے۔
۔اسکے بغیر سب کچھ ادھورا ہے۔
ہمارا آ پس کا کوئی بھی لین دین ہو امانت اسکا جزو اعظم ہے
اللہ نے فرمایا!
جب دوبندے آپس میں شراکت داری کریں تو تیسرا میں ان کا رفیق ہوتا ہوں اب لینے والا اور دینے والا کوئی ایک آپس میں خیانت کرے تو میرے رفاقت اٹھ جاتی ہے ۔
اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اپنے دل کی بات بتاتا ہے تو یہ بات بھی اس کے پاس ایک امانت ہے ہوتی ہے۔
اور اگر کوئی دوسرا شخص وہ بات کسی اور کو بتائے گا تو وہ خائن ہوگا اور سزا کا حقدار ہوگا۔
وقت بھی ہمارے پاس ایک امانت ہے اس میں بھی خیانت نہیں کرنی چاہیے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ایک جگہ فرمایا
ترجمہ۔
” اور وہ لوگ اپنی امانتوں میں اور عہدوں میں بکے ہیں۔
ان سب آیات قرآنی اور حدیث اور واقعات سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے۔
کہ مانت کی بہت اقسام ہیں اور ہمیں ان امانتوں میں خیانت نہیں کرنی چاہیے۔
للہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمی
Nice topic