اسلام و علیکم۔
کیسے ہیں آپ سب ؟
آج میں آپ کے لیے جس موضوع پر لکھ رہی ہوں وہ ایک عظیم ہستی ہیں۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ۔
حضرت سعد بن مالک بن وہیب 590 تا595 عیسوی کے درمیان پیدا ہوئے۔
حضرت سَعد بن ابی وَقّاص کے نام سے مشہور ہیں،
پیدائش مدینہ میں ہوئی اور آپ نے ہجرت مدینہ سے تیس سال پہلے انکھ کھولی۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے 23 سال چھوٹے تھے,
پیغمبر اکرمؐ کے صحابی اور ایران کے ساتھ جنگ میں اسلامی فوج کے کمانڈروں میں سے تھے۔
حسب و نسب۔
سعد کی کنیت ابو اسحاق تھا۔کیونکہ آپ کے دو بیٹے اسحاق اکبراور اسحاق اصغر تھے۔
ان کا باپ مالک بن وہیب (اہیب) بن عبد مناف بن زہرہ جو ابی
وقاص کے نام سے مشہور ہے،
پانچویں پشت میں جاکر آپ کا سلسلہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کی والدہ کا نام حضرت آمنہ تھا۔
فن۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ تیر بنانے میں ماہر تھے اور کمان بنانے میں بھی ماہر تھے۔
سولہ یا سترہ سال کی عمر میں میں مکے میں سمجھدار، بہادر، اور نیک لوگوں میں سے تھے ۔۔
پیغمبر اکرمؐ کے صحابی
ان کے اسلام لانے کے بارے میں اقوال مختلف ہیں۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے نبوت کے پہلے سات دنوں میں سے کسی دن اسلام قبول کر لیا تھا۔
آپ سابقون الاولون میں سے تھے
حضرت سعد ،رضی اللہ تعالی عنہ نے پیغمبر اکرمؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے، پہلے مدینے ہجرت کی
۔اخوات کا رشتہ۔
پیغمبر اکرمؐ نے ان کے اور سعد بن معاذ کے درمیان عقد اخوت جاری کیا۔
غزوات میں شرکت۔
حضرت سعد، سریہ عبید بن حارث میں اسلام کی راہ میں پہلا تیر چلانے والے تھے۔
آپ نے جنگ بدر، جنگ احد، جنگ خندق اور جنگ خیبر میں شرکت کی۔
فتح مکہ میں مہاجرین کا پرچم اٹھانے والے تین افراد میں سے ایک حضرت سعد تھے۔
دوسرے غزوات میں بھی پیغمبر اکرمؐ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھے۔
اور مسلمانوں کے ماہر تیر اندازوں میں حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کا شمار ہوتا تھا۔
حدیث:
آپ نے پیغمبر اکرمؐ سے 271 حدیث نقل کیا ہے۔
واقعہ۔
جب حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے اسلام قبول کیا،
تو ان کی والدہ کو اپنےاباو اجداد کے مذہب سے بہت زیادہ لگاؤ تھا،
انہوں نے کھانا پینا چھوڑ دیا، جب تک حضرت سعد اپنے مذہب میں واپس نہیں آجاتے میں کچھ نہیں کھاؤں گی،
تیسرے روز جب حالت خراب ہوگئی تو چھوٹے بھائی نے پانی پلایا،
۔تو اللہ تعالی نے قرآن پاک میں اس آیت کو نازل فرمای
ترجمہ۔
ہم نے انسان کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کی ہدایت کی لیکن اگر وہ تجھے میرے ساتھ،
شرک کرنے کے لیے مجبور کریں کریں جس کا تمہیں علم نہیں،
تو ان کا کہنا نہ مان تم سب کا لوٹنا میری طرف ہے، پھر میں ہر اس چیز کی تمہیں خبر دوں گا جو تم کرتے تھے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے دور میں حضرت سعد نے،
جنگ قادسیہ کی سپہ سالاری اپنے ذمے لی۔
: چھ رکنی شورای معین کرنے کے لیے خلیفہ دوم نے حضرت سعد کو چھ رکنی شورای میں انتخاب کیا۔
خصوصیات۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ «عشرۂ مبشرہ» میں سے ہیں۔
(وہ دس افراد جن کو بہشت کی بشارت دی گئی تھی) اور مستجاب الدعوۃ ہونا ہے۔
ابتدا میں مسلمان چپ کر عبادت کرتے تھے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ ان مسلمانوں میں بھی شامل تھے۔
شعب ابی طالب میں تین سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر،
بہت مشکل کا دور تھا لیکن سعد رضی اللہ تعالی عنہ اس مشکل دور میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ کے ساتھ رہے۔
حالانکہ اس دور میں حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کے قبیلے کو کوئی مشکل نہ تھی،
لیکن انہوں نے آپ کا ساتھ نہیں چھوڑا۔
جن صحابہ نے یثرب کی طرف ہجرت کی، ان میں حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام گاہ پر پہرا دینے کی عزت ملی۔
واقعہ۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتیں ہیں کہ،
ایک مرتبہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے اور آپ نے فرمایا،
آج باہر کوئی نیک پہرا دینے والا ہونا چاہیے،
اتنے میں ہتھیاروں کی آواز سنائی دی آپ نے پوچھا کون؟
حضرت سعد نے کہا میں سعد، آج مجھے خیال آیا کہ،
آپ کی حفاظت کروں کوئی دشمن اپ کو نقصان نہ پہنچا دے اس لیے پہلا دینے چلا آیا،
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کو دعا دی اور سو گئے۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ جنگ احد میں میں نبی کریم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی تھے،
جنگ احد میں ایک ہزار تیر چلائے،
آپ جانثار صحابہ میں سے تھے۔
بیت رضوان میں 1400 صحابہ کرام تھے،
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ ان میں بھی شامل تھے۔
اللہ تعالی نے کھلے الفاظ میں راضی ہونے کی خوشخبری دی ہے۔
واقعہ۔
احد کے میدان میں میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ترکش سے تیر نکال کر حضرت حضرت سعد کو پکڑا تے،
اور آپ تیر چلاتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں فرمایا،
” کہ سعد میرے ماں باپ تجھ پر قربان۔”
ا300 افراد کا مسلمانوں کا قافلہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے ،
حج کے لئے روانہ کیا ان میں بھی حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ شامل تھے۔
جب حج کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ایک لاکھ مسلمان گئے،
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ ان میں بھی شامل تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے،
نجد میں آباد ایک قبیلے کا آپ کو عامل مقرر کیا
اور آپ نے اپنے فرائض،
بہت اچھے طریقے سے انجام دیے۔
حضرت سعد کی دعا۔
اللہ میرے گناہوں کو بخشنا۔
اور مجھے مخلوق کی خدمت کی توفیق دینا۔
حضرت سعد بن وقاص کے بارے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا۔
الہی اللہ اس کی دعا قبول فرمایا کر،
اس کی تیر اندازی درست رکھ رکھ،
آپ بہت نیک انسان تھے آپ نے زندگی میں بہت زیادہ حج کیے۔
آپ بہت قناعت پسندتھے نرم دل تھے سادہ غذا کھاتے اور سادہ لباس پہنتے تھے۔
وفات؛
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ کے نزدیک،
سرزمین عتیق میں اپنے قصر میں وفات پائی۔
وصیت۔
آپ نے وصیت کی کہ جنگ بدر میں جو لباس پہنا ہوا تھا آپ کو وہیں لباس میں دفن کیا جائے،
اپ کا جنازہ مدینہ لایا گیا اور اور جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
امید ہے کہ آپ کو انفارمیشن ضرور پسند آئے گی کمنٹ میں ضرور بتائیے گا۔
جزاک اللہ
رابطے کے لیے
Great personality
❤️❤️❤️❤️❤️👌👌👌👌👈👈
Superb
Great information…..that i never read about him…. awesome
Good artical
Good
Both khoob