اسلام و علیکم ۔
کیسے ہیں آپ سب ؟
آج کا میرا موضوع ہے سورت فاتحہ آوار اسکی فضیلت۔
(1) سورۃ الفاتحۃ (مکی — کل آیات 7)
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ.(1)
شروع اللہ کے نام سے، جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے۔
اَ لْحَـمْدُ لِلّـٰهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ (2)
سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا پالنے والا ہے۔
اَلرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ (3)
بڑا مہربان نہایت رحم والا۔
مَالِكِ يَوْمِ الدِّيْنِ (4)
جزا کے دن کا مالک۔
اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَاِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ (5)
ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِـيْـمَ (6)
ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
صِرَاطَ الَّـذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْـهِـمْۙ غَيْـرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَيْـهِـمْ وَلَا الضَّآلِّيْنَ (7)
ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام کیا،
نہ کہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا اور نہ وہ جو گمراہ ہوئے۔ا
اب میں آپ کو بتاتی ہوں اپنے الفاظ میں سورۃ فاتحہ کا مفہوم کیا ہے؟
سورۃ فاتحہ ایک جامع سورت ہے جس میں قرآن مجید کا خلاصہ ہے،
اللہ تعالی نے سب سے پہلے آیت بسم اللہ کے ساتھ شروع کی ہے،
یعنی ہمیں ہر کام کی ابتداء اللہ کےنام کے ساتھ کرنی چاہیے،
بسم اللہ کہہ کرکام شروع کرنے سے کام میں برکت ہو جاتی ہے۔
تمام تعریفیں اللہ تعالی کے لئے ہیں یعنی اللہ تعالی تمام کائنات کا مالک ہے،
وہ یکتا اور بے مثال ہے، زمین آسمان کائنات کے ذرے ذرے کا وہی مالک اور خالق ہے،
اس لیے لئے اللہ تعالی کی جتنی بھی تعریف حمد د بیان کی جائے وہ کم ہے،
ہم ساری زندگی سجدے میں گزار دیں تب بھی اللہ تعالی کی کسی ایک نعمت کا بھی پوری طرح حق ادا نہیں کر سکتے۔
اگلی آیت میں فرمایا، اللہ تعالی نہایت مہربان اور رحم کرنے والے ہیں،
لازمی پڑھیں
یعنی اللہ تعالی ستر ماؤں سے بھی زیادہ زیادہ پیار کرنے والے ہیں،
لیکن اس کا ہرگز مطلب یہ نہیں کہ انسان اللہ کو بھول کر دنیا میں لگ جائے،
اللہ کی نافرمانی کرے کہ اللہ رحمن اور رحیم ہے، کیونکہ انسان کو یہ نہیں بھولنا چاہئے،
کہ اللہ کا صفاتی نام جبار و قہار بھی ہے،
یعنی قیامت میں اللہ تعالی انسان کی جزا اور سزا کا فیصلہ کریں گے،
اللہ تعالی ہر چیز کے مالک ہیں
اگلی آیت میں انسان اللہ تعالی سے مخاطب ہو کر کہتا ہے،
کہ اللہ تعالی ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں۔
ہمیں سیدھا راستہ دیکھا لیکن
انسان اب کو سوچنا ہے کہ کونسا راستہ جنت کی طرف لے کر جاتا ہے،
اور دوسرا راستہ گناہ کا راستہ ہےجو انسان کو جہنم کی طرف لے کر جاتا ہے،
پھر انسان کہتا ہے اللہ تعالی مجھے ان لوگوں کا راستہ دکھا،
جن پر تو نے انعام کیا، اللہ تعالی نے کن لوگوں پر کیا ہے؟
ہمیں یہ دیکھنا ہے صالحین، شہداء، نیک لوگ ، نیک تاجر ان سب پر اللہ تعالی نے اپنا انعام کیا ہے،
اللہ مجھے ان لوگوں میں شامل نہ فرما جن پر تیرا غضب ہوا،
اللہ تعالی کا غضب کن لوگوں پر ہوتا ہے؟
اللہ تعالی کا عذاب ان لوگوں پر ہوتا ہے،
جو اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اللہ کے حکموں کا ،
انکار کرتے ہیں انسان نماز چھوڑتا ہے تو اللہ تعالی کے حکم کا انکار کرتا ہے،
ہے وہ گناہ کرتا ہےنافرمانی کرتا ہے پھر بھی دعاکی کہ مجھے گمراہ لوگوں میں شامل نہ فرما،
کون ہیں گمراہ لوگ؟
گمراہ وہ ہیں جو راستے سے بھٹک گئے ہیں ہیں یعنی دین کو چھوڑ کر دنیا میں لگ گئے ہیں
۔آج کل ہر شخص اپنے مطلب کی آیتوں سے دیندار بنا ہوا ہے، صحیح راستے سے بھٹک گیا ہے۔
الفاتحہ کا تعارف:
سورۃ الفاتحۃ قرآن مجید کی ترتیب توقیفی کے لحاظ سے پہلی سورت ہے۔
ترتیب نزولی کے اعتبار سے اس سورت کا نمبر پانچ (5) ہے یہ سورت سورۃ المدثر کے بعد نازل ہوئی۔
یہ قرآن مجید کے پہلے پارے میں ہے۔ اس سورت میں ایک (1) رکوع اور سات(7) آیات ہیں۔
اس سورت میں پہلی آیت تسمیہ یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم کو شامل کیا جاتا ہے۔
یہ سورت دو مرتبہ نازل ہوئی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ میں اور دوسری مرتبہ مدینہ منورہ میں تحویل قبلہ کے وقت ،
پہلی بار مکہ مکرمہ میں نازل ہونے کی وجہ سے مکی ہی کہا جاتا ہے۔
اس سورت کے بہت سے نام ہیں اسکو سورۃ دعا بھی کہتے ہیں،
جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1: ام القرآن
2: ام الکتاب
3: سورۃ الحمد
4: السبع المثانی
5: فاتحہ الکتاب
6: الکافیہ
7: الوافیہ
8: الشفاء
9: سورۃ الدعاء
10: سورۃ الالصلوٰۃ
سورۃ الفاتحۃ کے بے شمار فضائل زبان نبویہ ﷺ سے وارد ہوئے ہیں۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَن رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ عَلَى أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا أُبَيُّ وَهُوَ يُصَلِّي فَالْتَفَتَ أُبَيٌّ وَلَمْ يُجِبْهُ وَصَلَّى أُبَيٌّفَخَ فَّفَ ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،
فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَعَلَيْكَ السَّلَامُ مَا مَنَعَكَ يَا أُبَيُّ أَنْ تُجِيبَنِي إِذْ دَعَوْتُكَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: أَفَلَمْ تَجِدْ فِيمَا أَوْحَى اللَّهُ إِلَيَّ أَنِ اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ سورة الأنفال آية 24،
قَالَ: بَلَى، وَلَا أَعُودُ إِنْ شَاءَ اللَّهُ، قَالَ: أَتُحِبُّ أَنْ أُعَلِّمَكَ سُورَةً لَمْ يَنْزِلْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا، قَالَ: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
كَيْفَ تَقْرَأُ فِي الصَّلَاةِ، قَالَ: فَقَرَأَ أُمَّ الْقُرْآنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا أُنْزِلَتْ فِي التَّوْرَاةِ وَلَا فِي الْإِنْجِيلِ وَلَا فِي الزَّبُورِ وَلَا فِي الْفُرْقَانِ مِثْلُهَا، وَإِنَّهَا سَبْعٌ مِنَ الْمَثَانِي، وَالْقُرْآنُ الْعَظِيمُ الَّذِي أُعْطِيتُهُ
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابی بن کعب رضی الله عنہ کے پاس سے گزرے وہ نماز پڑھ رہے تھے، آپ نے فرمایا: ”اے ابی ( سنو ) وہ ( آواز سن کر ) متوجہ ہوئے لیکن جواب نہ دیا،
نماز جلدی جلدی پوری کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا: السلام علیک یا رسول اللہ! ( اللہ کے رسول آپ پر سلامتی نازل ہو ) ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا:
وعلیک السلام ( تم پر بھی سلامتی ہو ) ابی! جب میں نے تمہیں بلایا تو تم میرے پاس کیوں نہ حاضر ہوئے؟ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! میں نماز پڑھ رہا تھا۔ آپ نے فرمایا: ” ( اب تک )
جو وحی مجھ پر نازل ہوئی ہے اس میں تجھے کیا یہ آیت نہیں ملی استجيبوا لله وللرسول إذا دعاكم لما يحييكم ”اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول کے کہنے کو بجا لاؤ، جب کہ رسول تم کو تمہاری زندگی بخش چیز کی طرف بلاتے ہوں“
( انفال ۲۴ ) ، انہوں نے کہا: جی ہاں، اور آئندہ إن شاء اللہ ایسی بات نہ ہو گی۔ آپ نے فرمایا: ”کیا تمہیں پسند ہے کہ میں تمہیں ایسی سورت سکھاؤں جیسی سورت نہ تو رات میں نازل ہوئی نہ انجیل میں اور نہ زبور میں اور نہ ہی قرآن میں؟
“ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! ( ضرور سکھائیے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز میں تم ( قرآن ) کیسے پڑھتے ہو؟“ تو انہوں نے ام القرآن ( سورۃ فاتحہ ) پڑھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔
تورات میں، انجیل میں، زبور میں ( حتیٰ کہ ) قرآن اس جیسی سورت نازل نہیں ہوئی ہے۔ یہی سبع مثانی ۲؎ ( سات آیتیں ) ہیں اور یہی وہ قرآن عظیم ہے جو مجھے عطا کیا گیا ہے“۔(جامع ترمذی: 2875)
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : انْطَلَقَ نَفَرٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفْرَةٍ سَافَرُوهَا حَتَّى نَزَلُوا عَلَى حَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ ، فَاسْتَضَافُوهُمْ ، فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمْ ، فَلُدِغَ سَيِّدُ ذَلِكَ الْحَيِّ ، فَسَعَوْا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ ، لَا يَنْفَعُهُ شَيْءٌ
، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : لَوْ أَتَيْتُمْ هَؤُلَاءِ الرَّهْطَ الَّذِينَ نَزَلُوا لَعَلَّهُ أَنْ يَكُونَ عِنْدَ بَعْضِهِمْ شَيْءٌ فَأَتَوْهُمْ ، فَقَالُوا : يَا أَيُّهَا الرَّهْطُ ، إِنَّ سَيِّدَنَا لُدِغَ وَسَعَيْنَا لَهُ بِكُلِّ شَيْءٍ لَا يَنْفَعُهُ ، فَهَلْ عِنْدَ أَحَدٍ مِنْكُمْ مِنْ شَيْءٍ ؟
فَقَالَ بَعْضُهُمْ : نَعَمْ ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرْقِي ، وَلَكِنْ وَاللَّهِ لَقَدِ اسْتَضَفْنَاكُمْ فَلَمْ تُضَيِّفُونَا ، فَمَا أَنَا بِرَاقٍ لَكُمْ حَتَّى تَجْعَلُوا لَنَا جُعْلًا فَصَالَحُوهُمْ عَلَى قَطِيعٍ مِنَ الْغَنَمِ ، فَانْطَلَقَ يَتْفِلُ عَلَيْهِ ، وَيَقْرَأُ : الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ سورة الفاتحة آية 2 ،
فَكَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَانْطَلَقَ يَمْشِي وَمَا بِهِ قَلَبَةٌ ، قَالَ : فَأَوْفَوْهُمْ جُعْلَهُمُ الَّذِي صَالَحُوهُمْ عَلَيْهِ ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ : اقْسِمُوا ، فَقَالَ : الَّذِي رَقَى ، لَا تَفْعَلُوا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَنَذْكُرَ لَهُ الَّذِي كَانَ فَنَنْظُرَ مَا يَأْمُرُنَا
، فَقَدِمُوا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا لَهُ ، فَقَالَ : وَمَا يُدْرِيكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ ، ثُمَّ قَالَ : قَدْ أَصَبْتُمُ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي مَعَكُمْ سَهْمًا ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ صحابہ رضی اللہ عنہم سفر میں تھے۔ دوران سفر میں وہ عرب کے ایک قبیلہ پر اترے۔ صحابہ نے چاہا کہ قبیلہ والے انہیں اپنا مہمان بنا لیں،
لیکن انہوں نے مہمانی نہیں کی، بلکہ صاف انکار کر دیا۔ اتفاق سے اسی قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا، قبیلہ والوں نے ہر طرح کی کوشش کر ڈالی،
لیکن ان کا سردار اچھا نہ ہوا۔ ان کے کسی آدمی نے کہا کہ چلو ان لوگوں سے بھی پوچھیں جو یہاں آ کر اترے ہیں۔ ممکن ہے کوئی دم جھاڑنے کی چیز ان کے پاس ہو۔ چنانچہ قبیلہ والے ان کے پاس آئے
اور کہا کہ بھائیو! ہمارے سردار کو سانپ نے ڈس لیا ہے۔ اس کے لیے ہم نے ہر قسم کی کوشش کر ڈالی لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا۔ کیا تمہارے پاس کوئی چیز دم کرنے کی
ہے؟ ایک صحابی نے کہا کہ قسم اللہ کی میں اسے جھاڑ دوں گا لیکن ہم نے تم سے میزبانی کے لیے کہا تھا اور تم نے اس سے انکار کر دیا۔ اس لیے اب میں بھی اجرت کے بغیر نہیں جھاڑ سکتا،
آخر بکریوں کے ایک گلے پر ان کا معاملہ طے ہوا۔ وہ صحابی وہاں گئے اور الحمد لله رب العالمين پڑھ پڑھ کر دم کیا۔ ایسا معلوم ہوا جیسے کسی کی رسی کھول دی گئی ہو۔
وہ سردار اٹھ کر چلنے لگا، تکلیف و درد کا نام و نشان بھی باقی نہیں تھا۔ بیان کیا کہ پھر انہوں نے طے شدہ اجرت صحابہ کو ادا کر دی۔ کسی نے کہا کہ اسے تقسیم کر لو، لیکن جنہوں نے جھاڑا تھا، وہ بولے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں،
حاضر ہو کر پہلے ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کر لیں۔ اس کے بعد دیکھیں گے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا حکم دیتے ہیں۔
چنانچہ سب حضرات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
یہ تم کو کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ بھی ایک رقیہ ہے؟ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
کہ تم نے ٹھیک کیا۔ اسے تقسیم کر لو
اور ایک میرا حصہ بھی لگاؤ۔ یہ فرما کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے (صحیح بخاری:2276)
عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ بَيْنَمَا جِبْرِيلُ قَاعِدٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ نَقِيضًا مِنْ فَوْقِهِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ فَقَالَ
هَذَا بَابٌ مِنْ السَّمَاءِ فُتِحَ الْيَوْمَ لَمْ يُفْتَحْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَنَزَلَ مِنْهُ مَلَكٌ فَقَالَ هَذَا مَلَكٌ نَزَلَ إِلَى الْأَرْضِ لَمْ يَنْزِلْ قَطُّ إِلَّا الْيَوْمَ فَسَلَّمَ
وَقَالَ أَبْشِرْ بِنُورَيْنِ أُوتِيتَهُمَا لَمْ يُؤْتَهُمَا نَبِيٌّ قَبْلَكَ فَاتِحَةُ الْكِتَابِ وَخَوَاتِيمُ سُورَةِ الْبَقَرَةِ لَنْ تَقْرَأَ بِحَرْفٍ مِنْهُمَا إِلَّا أُعْطِيتَهُ
ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جبریل علیہ السلام نبی اکرم ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ،
اچانک انھوں نے اوپر سے ایسی آواز سنی جیسی دروازہ کھلنے کی ہوتی ہے تو انھوں نے اپنا سر اوپر اٹھایا اور کہا :
آسمان کا یہ دروازہ آج ہی کھولا گیا ہے ، آج سے پہلے کبھی نہیں کھولا گیا ، اس سے ایک فرشتہ اترا تو انھوں نے کہا : یہ ایک فرشتہ زمین پر اترا ہے ،
یہ آج سے پہلے کبھی نہیں اترا ، اس فرشتے نے سلام کیا اور ( آپ ﷺ سے ) کہا : آپ کو دو نور ملنے کی خوش خبری ہو جو آپ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیئے گئے :
( ایک ) فاتحۃ الکتاب ( سورہ فاتحہ ) اور ( دوسری ) سورہ بقرہ کی آخری آیات ۔ آپ ان دونوں میں سے کوئی جملہ بھی نہیں پڑھیں گے مگر وہ آپ کو عطا کر دیا جائے گا ۔ (صحیح مسلم : 1877/806)
امید کرتی ہوں آپ کو آرٹیکل ضرور پسند آئے گا۔۔
کمنٹس میں آپنی رائے کا اظہار ضرور کریں۔شکریہ۔
رابطے کے لیے
Ma Sha Allah….
Very informative about Quran Pak….. described in detail….
Surat Dua b khety Hain surat fatiga ko.
Ma sha Allah……
Described in very easy n simple way…..
Very informative
Great artical sister
Nice
MashAllah ❤️
Good 👍 zabrdast work
Informative