مایوسی گناہ ہے۔

اسلام و علیکم

آپ سب کیسے ہیں ؟

امید ہے آپ سب خیریت ہوں گے۔؟؟
آج میں جس موضوع پر لکھ رہی ہوں,

وہ ہے مایوسی۔۔

مایوسی کی تعریف؟

مایوسی سیےانساں جب ہر طرف سے ناامید ہو جاتا ہے،

تو، اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو جاتی ہے وہ،

اپنے آپ کو بے بس،
محسوس کرتا ہے،
اسی کا نام مایوسی ہے۔۔

فرماں ہے

“مایوسی کفر ہے،،

کیونکہ انسان اپنی فطرت کے اندر ناشکرا اور جلد باز ہے,

اس لئے وہ جلد,مایوس ہو جاتا ہے.

اس حالت میں وہ اللہ کی ناشکری بھی کر لیتا ہے,

گویا اللہ سب کو دیتا ہے۔

اسی لئے فرمایا

کہ “مایوسی گناہ ہے”.

ظاہر ہے مایوسی کی حالت میں جب انسان ناامید ہوتا ہے،

تو کبھی وہ زبان سے اور کبھی کبھی اپنے عمل سے گناہ کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔۔

“مایوسی قناعت چھوڑنے کا دوسرا نام ہے”

یعنی انسان کا ایمان جب کمزور پڑ جاتا ہے،

وہ اللہ کی رحمت سے ناامید ہو جاتا ہے،

تو گناہ کاری کی طرف مائل ہو جاتا ہے،

اور اکثر اوقات اپنے آپ کو ختم کر لیتا ہے۔

خودکشی آج کے دور میں بہت لوگ کر رہے ہیں۔

خودکشی  میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔۔ مایوس انسان گناہ کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے ں،

قصور ہمارے ملک کا ہے۔

جو ہم اپنے دین سے دور ہوتے جا رہے ہیں۔

خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے،

حالانکے آپ ماضی میں دیکھیں تو آپ کو یہ چیز بہت کم ،نظر آئے گی کیونکہ لوگ بہت قناعت پسند تھے۔

بہت تھوڑے پر بھی اللہ کا شکر کرتے تھے نہ منہ سے کفریہ کلمات ،
نکالتے نہ مرنے کی سوچتے۔

حالانکہ خودکشی کرنے والوں کو جو عذاب ملتا ہے،

عذاب خودکشی؟

وہ یہ ہے کہ جس طریقے سے وہ اپنے آپ کو ختم کرے گا اسی طریقے سے اس سے بار بار مارا جاتا ہے،
پھر زندہ کیا جاتا ہے پھر مارا جاتا ہے اور یہ عذاب اسے ہمیشہ ہوتا رہے گا۔۔

اللہ کی ذات سے مایوسی کی دوسری صورت جو آج کل عام ہے،
وہ ہر انسان اولاد کم پیدا کرنا چاہتا ہے،

کیونکہ آج بندہ اپنے ذریعہ معاش کو کم سمجھتا ہے،

اس نے اپنی خواہشات کو اتنا بڑھا دیا ہے۔

کہ ہر شخص آسائش سے بھرپور، زندگی گزارنا چاہتا ہے ۔

اسی لیے ہر شخص اولاد کم پیدا کرنے کے حق میں ہے۔

قرآن پاک میں واضح طور پر فرمایا گیا

ترجمہ۔

“آپنی اولاد کو تنگی کے ڈر سے قتل نہ کرو٫

کیوں کہ ہم تم کو رزق دینے والے ہیں اور ان کو بھی۔”

لیکن انسان سمجھتے ہیں کہ میرے رسائل مجھے اتنی اجازت نہیں دیتے۔۔

دوسرے لفظوں میں اللہ کے رزق کی تقسیم سے مایوس ہو چکا ہے۔

آج ہر بندہ عیش و آرام اور بے انتہا سہولیات کی زندگی گزارنا چاہتا ہے۔

اسی لئے اللہ کی ذات پر یقین کامل نہ رکھتے ہوئے حرام کی تمیز کیے بغیر ،

زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے گانے کے چکر میں پڑا ہوا ہے۔

گویا کہ وہ غیر ارادی
طور پر مایوسی کا بھی شکار ہے۔

اسی لئے برملا اولاد میں کمی میں رکھنا چاہتا ہے،

یہ انسان کی مایوس ہونے کی انتہا ہے،

اور اس کا ذکر قرآن مجید میں متعدد مقامات پر موجود ہے۔

ورنہ آج کے امراء اتنا پیسہ ایک شادی پر لوٹا دیتے ہیں،

اس سے کتنے غرباء کا بھلا ہو سکتا ہے۔

اس لئے اسلام میں میں صدقہ زکوۃ عشر اور خیرات کا نظام بنایا گیا،

اور فضول خرچی سے منع کیا گیا۔

قرآن مجید میں ہے

ترجمہ۔

“فضول خرچی کرنے والے شیطان کے بھائی ہیں”

صلہ رحمی سے دور ہوتے چلے جاتے ہیں یہ چیز بھی،

مایوسی پھیلانے کا سبب بنتی ہے۔

جب تک ہم اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر چلیں گے،

مایوسی کا گناہ کرتے جائیں گے،

صبر سے دور ہوتے جائیں گے،
اور نہ شکری کی دلدل میں چلے جائیں گے۔

بقول شاعر

کبھی مایوس مت ہونا امیدوں کے سمندر میں،
تلاطم آ بھی جاتے ہیں سفینے ڈوب جاتے ہیں۔

حدیث ہیں ہے

ترجمہ۔(مفہوم)

اگر ساری دنیا مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہے،

مگر اللہ نہ چاہے تو کوئی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا،

اور اگر ساری دنیا مل کر تمہیں فائدہ پہنچا چاہے،۔

مگر اللہ تعالی نہ چاہیں تو کوئی تمہیں فائدہ نہیں پہنچا سکتا۔

Yai b prhiye.

اس حدیث سے ہمیں یہی سبق ملتا ہے،

کہ ہمیں مایوس نہیں ہونا چاہیے،

کیونکہ اللہ کے حکم کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں ہے۔

اللہ پاک نے فرمایا۔

ترجمہ۔
اور نہیں چھوڑا آپ کو آپ کے رب نے،
اور نا بیزار ہوا،

پہلی حالت سے پہلی حالت بہتر ہے،
اور عنقریب آپ کا رب آپ کو اتنا عطا کرے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے،

اور ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے،

اور ہمیں مایوسی اور کفران نعمت سے نجات عطا فرمائے۔

ہمیں میں شکر کی عادت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔۔

جزاک اللہ۔

Rabty k lya.

Total
0
Shares
6 comments
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Previous Post
استاد کا احترام

استاد کا احترام۔

Next Post

وٹامن اور اسکے فائدے ۔

Related Posts