استاد کا احترام۔

استاد کا احترام

السلام علیکم

کیسے ہیں آپ سب؟

ہو آپ اللہ کی خاص رحمت میں جہاں بھی ہوں گے بالکل ٹھیک ہوں گے؟؟

آج میں جس موضوع پہ لکھ رہی ہوں وہ موضوع ہمارے معاشرے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہےوہ موضوع ہے۔

استاد کا احترام۔۔

استاد کا احترام

استاد کی تعریف ۔

وہ شخص ہمیں دینی اور دنیاوی علوم سے متعارف کروائے،

آئے اور ہماری شخصیت کو ایک اچھا انسان اور بہترین مسلمان بنانے کے لیے،

ہمارے ہمیں علم سکھائے اور ہماری تربیت کرے وہ ہمارا استاد ہے۔

اس حدیٹ میں ہے

ترجمہ۔

“میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں”
چنانچہ زندگی کا کونسا رخ ہے،

جہاں ہمیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے رہنمائی نہیں ملتی۔۔

حضرت علی کا قول ہے

مجھے ایک لفظ بھی سکھایا اس نے مجھے خرید لیا،

وہ چاہے تو مجھے آزاد کر دے، چاہے تو غلام بنالے، اور چاہے تو مجھے بھیج دے۔

اب ہم یہاں ہاں استاد کے آداب بیان کریں گے۔

1.آستاد کے آگے نہ چلنا.

2. اپنے استاد کی آواز سے زیادہ بلند آواز سے بات نہ کریں۔

3.استاد کا نام لے کر نا بلائیں لائی جائے اپنے جنتوں کو مخاطب کرتے ہیں۔

4..استاد کے پاس نہ آئیں تو اجازت کے منتظر رہیں،

کہ وہ پہلے آپ سے پوچھیں، کہ آپ کا کیسے آنا ہوا۔؟

5.استاد کو خوش رکھنے کی سرتوڑ کوشش کریں جیسا کہ،

حکم ہے جس نے باپ کو خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا،
جس نے باپ کو ناراض کیا،

اس نے اللہ کو ناراض کیا تو استاد بھی، روحانی باپ ہے۔۔

6.ہر جائز کام میں استاد کی اطاعت کریں۔

7. استاد کے بچوں اور اہل خانہ کا بھی احترام کریں۔

8. جس جگہ استاد کی نشت ہو وہاں نام بیٹھں۔

9.فوت جانے کے بعد ان کی قبر پر جا کر ان کے لیے دعا کریں،

اور ان کے اہل خانہ کا کا خیال رکھیں احترام کریں ہمیشہ نماز میں بھی دعا کریں۔۔
10.اگر کسی استاد کو آپنے طالب علم سے تکلیف پہنچے،

تو اسے اپنے علم کا فیض نہیں ملے گا۔ یا اس کا علممحدود ادھورا رہ جائے گا یا وہ آگے پھیلا نہیں سکے گا۔

آپ کو اس کے بارے میں ایک واقعہ بتاتی ہوں۔

 

شمس الائمہ حلوانی یک دفعہ سفر میں نکلے،
لیکن کسی وجہ سے انہیں ایک بستی میں رکنا پڑا۔

سب شگرد ملنے آئے لیکن لیکن ایک شاگرد نہ آیا،

دوبارہ کبھی وہ ملا تو آپ نے پوچھا کہ بیٹا اس دن میں، تمہاری بستی میں رات ٹھہرا،

لازمی پڑھیں

سب مجھے ملنے آئے تم کیوں نہیں آئے؟
تو اس نے جواب دیا،

کہ میں اپنے والدین کی خدمت میں مصروف تھا۔

علامہ صاحب نے جواب دیا ی بیٹا بیشک والدین کی،
خدمت کی وجہ سے تمیں روزی بھی بہت ملے گی،
اورعمر میں برکت بھی ہوگی۔

لیکن تمہارے علم کا فیض آگے نہیں چلے گا۔
کیونکہ تم نے استاد کی پرواہ نہیں کی یعنی دل سے ادب نہیں کیا۔

اپنے استاذہ کا احترام کرنے سے ہمیں جن انعامات سے نوازا جاتا ہے ہم ان کا ذکر کرتے ہیں۔۔

بقول شاعر۔

باادب ہو کے کے وہ معظم ہوا٫

بے ادب ہوں کے کے ابو جہل مارا گیا۔

 حدیث میں بیان ہے!۔

ترجمہ.

“عمر اور رزق میں برکت کے لیے صلہ رحمی کرو”

اس میں سب سے زیادہ حق والدین کے بعد استاد کا ہے۔

تو عمر اور رزق میں برکت زیادہ بڑا انعام کیا ہو سکتا ہے۔
دنیا اور آخرت میں اچھے سے نوازا جاتا ہے۔
لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت اور احترام ڈال دیا جاتا ہے۔
یہاں تک کہ مرنے کے بعد بھی اسے اچھے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔

اس لیے بڑے بڑے خلیفہ اور بادشاہ جو استاد کا ادب کرتے تھے ان کا نام زندہ ہے۔

واقعہ۔

یہاں ہم خلیفہ ہارون رشید کا واقعہ بیان کرتے ہیں ،

کہ کے دو بیٹے مامون الرشید اور امین الرشید امام اصمعی رحمتہ اللہ علیہ سے تعلیم حاصل کرتے،

تھے ایک دفعہ خلیفہ درس گاہ میں گئے تو دیکھا کہ ان کا بیٹا امام صاحب کو پانی والا لوٹا پکڑ کر وضو کروا رہا ہے ،

وہ پانی ڈال رہا تھا امام صاحب اپنے پاؤں مل رہے تھے،

خلیفہ نے دیکھا تو بے ساختہ کہا مجھے انتہائی خوشی ہوتی ،

اگر یہ ایک ہاتھ سے پانی ڈالتا اور دوسرے ہاتھ سے آپ کے پاوں ملتا۔

اوراس واقعہ سے استاد کی عزت اوز قدر بخوبی معلوم ہو جاتی ہے۔

ماں باپ میں دنیا میں لانے کا ذریعہ بنتے ہیں، اور استاد ہمیں دنیا میں چلنا پھرنا ،

اور رہنے سہنے کے،
آداب سکھاتے ہیں ،اس لئے دونوں کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔

امید کرتے ہوں آپ کو میری ،

یہ فارمیشن ضرور پسند آئے گی؟؟

کمنٹ میں اپنی رائے کا اظہار ضرور کریں ۔شکریہ۔۔

رابطے کے لیے

Total
0
Shares
11 comments
Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Previous Post

Waseem Badami.

Next Post

مایوسی گناہ ہے۔

Related Posts